کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 87
وقت ہم مسئلہ تقدیر پر جھگڑ رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سرخ تھا،جیسے آپ کے رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہو۔پھر ارشاد فرمایا:’’کیا تمھیں اسی بات کا حکم دیا گیا ہے یا اسی لیے مجھے تمھاری طرف بھیجا گیا ہے؟ تم سے پہلے لوگوں نے جب اس مسئلے میں جھگڑا کیا،تو تباہ ہوگئے۔میں تم پر یہ لازم قرار دیتا ہوں،کہ اس سلسلے میں آئندہ جھگڑنا نہیں ہوگا۔‘‘[1] ان تین شواہد میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتساب کرتے وقت سخت رویہ اختیار کیا۔عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے سلام کا آپ نے جواب نہیں دیا اور نہ خوش آمدید کہا،عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو زرد رنگ کے دو کپڑے جلانے کا حکم دیا،صحابہ کرام کو جب تقدیر کے مسئلے میں جھگڑتے دیکھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا،یوں دکھائی دے رہا تھا،جیسے آپ کے رخساروں پر سرخ انار نچوڑ دیا گیا ہو۔ان حضرات کا احتساب کرتے ہوئے سخت رویہ… واللہ تعالیٰ اعلم… اس لیے اختیار کیا گیا،کہ ان سے یہ توقع نہ تھی،کہ وہ ایسی غلطیوں کا ارتکاب کریں گے۔یہ تو وہ سعادت مند ابرار و صلحا تھے،کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تربیت اور تزکیہ کیا تھا۔ ان تین کے علاوہ بھی ایسے شواہد ملتے ہیں،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتساب کے وقت سخت رویہ اختیار کیا،خاص طور پر ایسے اشخاص کے خلاف،جن سے خلافِ توقع شریعت کی خلاف ورزی ہوئی۔ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جارہا ہے:
[1] جامع الترمذي(المطبوع مع تحفۃ الأحوذي)،أبواب القدر،باب ما جاء من التشدید في الخوض فی القدر،حدیث نمبر ۲۲۱۶،۶/۲۷۹۔شیخ البانی نے اسے[حسن]قرار دیا ہے۔(دیکھئے:صحیح سنن الترمذي،۲/۲۲۳)۔