کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 86
میں گیا اور سلام عرض کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا اور نہ مجھے خوش آمدید کہا،بلکہ فرمایا:’’جاؤ یہ دھو ڈالو۔‘‘ میں گیا،اسے دھویا،پھر آیا،سلام عرض کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب دیا،مجھے خوش آمدید کہا اور ارشاد فرمایا: ’’فرشتے کافر کے جنازے میں خیر کا پیغام نہیں لاتے اور نہ ایسے شخص کے پاس آتے ہیں،جس نے زعفران مل رکھا ہو اور نہ ہی جنبی کے پاس۔‘‘ البتہ جنبی کے لیے یہ رخصت دی،کہ جب وہ سوئے یا کھائے پئے،تو وضو کرلے۔‘‘[1] ۲: امام مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،کہ وہ بیان کرتے ہیں،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر دو زرد رنگ کی چادریں دیکھیں،تو فرمایا: ’’کیا تیری ماں نے تجھے یہ پہننے کا حکم دیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ!ٍکیا انھیں دھو ڈالوں؟‘‘ فرمایا:’’بلکہ ان کو جلا ڈالو۔‘‘[2] ۳: امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ انھوں نے فرمایا:’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ہمارے پاس تشریف لائے،اس
[1] سنن ابی داود،(المطبوع مع عون المعبود)،کتاب الترجّل،باب فی الخلوق للرجال،حدیث نمبر ۴۱۷۰،۱۱/۱۵۵۔شیخ البانی نے اسے[حسن]قرار دیا ہے(ملاحظہ ہو:صحیح سنن ابی داود ۲/۶۸۸)۔ [2] صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النہی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،حدیث نمبر ۲۸۔(۲۰۷۷)،۳/۱۶۴۷)۔