کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 85
امیر مقرر کیا اور تم مجھے یہ مشورہ دیتے ہو،کہ میں اسے معزول کردوں۔‘‘[1] اسی طرح حضرت ابوبکر،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے ساتھ اس وقت بھی سختی سے پیش آئے تھے،جب انھوں نے مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ نرم سلوک روا رکھنے کی تجویز پیش کی تھی،فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے انھیں یہ توقع نہ تھی،کیونکہ دینی معاملات میں وہ خود شدید رویہ اختیار کرنے میں مشہور تھے۔ابوبکر نے اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا: ’’زمانۂ جاہلیت میں سخت اور اسلام میں انتہائی نرم،حالانکہ وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے،کیا میرے جیتے جی دین میں کمی کردی جائے گی۔‘‘[2] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جانب سے ایسے شخص کے متعلق احتساب میں سخت رویہ اختیار کرنا،جس سے غلطی سرزد ہونے کی توقع نہ تھی،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی بنا پر تھا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر اس شخص کے لیے نمونہ بنایا ہے،جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کی امید رکھتا اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں ایسے شواہد کثرت سے موجود ہیں،کہ جب ایسے اشخاص نے غلطی کی،جن سے غلطی کی توقع نہ تھی،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا سختی سے محاسبہ فرمایا اور ایسے ہی شواہد میں سے چند درج ذیل ہیں: ۱: امام ابوداؤد نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے،کہ میں رات کے وقت اپنے گھر والوں کے پاس آیا،میرے ہاتھ پھٹے ہوئے تھے،انھوں نے میرے ہاتھ پر زعفران لیپ کر دیا۔صبح کے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت
[1] تاریخ الطبري ۳/۲۲۶۔ [2] دیکھئے:مشکوٰۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب أبي بکر رضی اللّٰهُ عنہ،الفصل الثالث،روایت نمبر ۶۰۲۵،۳/۱۷۰۰۔۱۷۰۱۔