کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 84
-۱۳- بعض اوقات احتساب میں سختی سے کام لینا بعض لوگوں کا خیال ہے،کہ تمام حالات میں احتساب کرتے وقت نرمی اختیار کی جائے،لیکن یہ رائے درست نہیں۔اس میں تو کوئی شک نہیں،کہ احتساب کرتے وقت اصولی طور پر لطف و کرم اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے،لیکن بعض اوقات حالات سختی اور ترشی اختیار کرنے کے متقاضی ہوتے ہیں۔ ان حالات میں سے ایک صورت یہ ہے،کہ اگر خلافِ شرع کوئی حرکت،کسی ایسے شخص سے سرزد ہو،جس سے اس کے علم و فضل کی بنا پر توقع نہ کی جاتی ہو،تو اس کا احتساب سختی سے کیا جاتا ہے۔[1] احتساب کے متعلق یہ قاعدہ اور اصول اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے،کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کی ترجمانی کرتے ہوئے اسامہ رضی اللہ عنہ کو لشکر کی امارت سے معزول کرکے کسی اور عمر رسیدہ شخص کو امیر لشکر بنانے کی تجویز پیش کی،تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان پر ناراضی کا اظہار فرمایا اور بڑی سختی سے ان کا محاسبہ کیا: تاریخ طبری میں مذکور ہے کہ: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے،یک دم اچھلے اور عمر رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر ان سے کہا:’’ابن خطاب تیری ماں تجھے گم پائے!ٍرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے
[1] اس موضوع کی تفصیل میری کتاب ’’ من صفات الداعیۃ:اللین والرفق‘‘ صفحات ۳۴۔۵۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔