کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 83
ان کے مبارک دور میں وہ کیفیت نہ تھی،جس کا ہم اس دور میں مشاہدہ کر رہے ہیں،کہ اگر معروف کا تارک اور برائی کا مرتکب عوام الناس سے ہو،تو اس کا سخت احتساب کیا جاتا ہے۔لیکن کلیدی عہدوں پر فائز یا قریبی رشتہ دار یا دوست احباب منکرات کا ارتکاب کریں،تو انھیں کچھ نہیں کہا جاتا۔ان کے مواخذے اور احتساب کے سلسلے میں انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے وَعَیْنُ الرِّضَا عَنْ کُلِّ عَیْبٍ کَلِیْلَۃٍ کَمَا أَنَّ عَیْنَ السُّخْطِ تُبْدِيَ الْمَسَاوِیَا ’’خوش نودی کی آنکھ ہر عیب سے کند ہوتی ہے،جب کہ ناراضی کی آنکھ برائیوں کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں میں سے نہ کرے،ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،جو انصاف پر قائم تھے،اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی دینے والے تھے،خواہ اس کی زد ان کی اپنی ذات،والدین یا قریبی رشتہ داروں پر کیوں نہ پڑتی ہو۔آمین یا رب العالمین۔ تنبیہ: اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے،کہ اکابر اور بلند مرتبہ شخصیات کا،جیسے کوئی چاہے احتساب کرتا پھرے،بلکہ اس کے بھی آداب ہیں،جو احتساب کے وقت ملحوظِ خاطر رکھے جائیں گے۔ان آداب کا تذکرہ احتساب کے ماہرین علماء نے کتاب و سنت کی روشنی میں کیا ہے۔