کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 82
کے اعتبار سے اپنے سے بڑے یا برابر یا چھوٹے کو نیکی کا حکم دے،بشرطیکہ اس کا ارادہ نصیحت کرنے کا ہو،نہ کہ عار دلانے کا۔‘‘[1] اسی طرح کسی رشتہ دار کی قرابت اس سے سرزد ہونے والی برائی کے خلاف آواز بلند کرنے سے نہ روکے گی۔ارشاد ربانی ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ﴾[2] [اے ایمان والو!ٍاللہ تعالیٰ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کی غرض سے مضبوطی سے قائم رہنے والے ہوجاؤ۔] بعض مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:’’اس آیت کا لُبِّ لباب یہ ہے،کہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب اور انصاف پر کاربند ہونے پر دلالت کرتی ہے۔انصاف کی بنیاد پر گواہی دینا،انصاف کے مطابق حکم نافذ کرنا،انصاف کے ساتھ فتویٰ دینا،حق بات کہنے کے شرعی فریضہ کو کسی دشمن یا دوست کی وجہ سے نہ چھوڑنا،اور خواہشات کی پیروی کا ناجائز ہونا،یہ سب باتیں اس آیت کے ضمن میں آتی ہیں۔‘‘[3] صحابہ کرام کی جانب سے اس بات کا اہتمام کرنے پر بہت سے شواہد ملتے ہیں۔انہی میں سے اس کتاب میں بیان کردہ سابقہ شواہد ہیں،جن سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے،کہ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جب کتاب و سنت کے خلاف کوئی بات سرزد ہوئی،تو ان کا احتساب کیا گیا۔ان معزز شخصیات کو ان کے بلند مرتبہ یا ان کی عزت و توقیر کے باوجود احتساب کے بغیر چھوڑا نہیں گیا۔
[1] الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان،کتاب البر والاحسان،باب الصدق والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر،۱/۵۲۱۔ [2] سورۃ المائدہ/جزء من الآیۃ ۸۔ [3] منقول از:تفسیر القاسمي ۶/۱۱۷۔