کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 81
اسی طرح جب فاروق اعظم نے مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کا صدیق اکبر کو مشورہ دیا تو انھوں نے ایسا مشورہ دینے پر ان کی سرزنش کی۔[1] حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ طرزِ عمل اسلامی حکم کے عین مطابق تھا۔اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے،کہ کوئی غلط بات یا کام دیکھتے ہی وہ حسبِ استطاعت اس کا راستہ روکنے کے لیے کوشاں ہوجائیں،خواہ وہ غلط بات یا کام اہلِ علم و فضل سے سرزد ہو یا عوام الناس سے،کسی محبوبِ نظر رشتہ دار سے اس کا ارتکاب ہو یا کسی دشمن سے۔امام مسلم نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انھوں نے کہا،کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ،فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ،فَإِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ،وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔‘‘[2] ’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے،تو اس پر لازم ہے،کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے،اگر اس کی طاقت نہ رکھے،تو اپنی زبان سے روکے،اگر اس کی طاقت بھی نہ پائے،تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے،اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔‘‘ کسی قابلِ احتساب بات یا عمل کے موجود ہونے کی صورت میں کسی عالم کا علم اور کسی فاضل شخصیت کا فضل و شرف اسے احتساب سے بچا نہیں سکے گا۔امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں ایک باب کا حسبِ ذیل عنوان لکھا ہے: ’’ایک شخص کے لیے اس بات کے مستحب ہونے کا بیان،کہ وہ دین و دنیا
[1] دیکھئے:مشکوٰۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب أبي بکر الصدیق رضی اللّٰهُ عنہ،الفصل الثالث،حدیث نمبر ۶۰۲۵،۳/۱۷۰۰۔۱۷۰۱۔نیز دیکھئے:مرقاۃ المصابیح ۱۰/۳۸۴۔ [2] صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب کون النہی عن المنکر من الإیمان،حدیث نمبر ۴۸۔(۴۹)،۱/۶۹۔