کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 80
کسی راستے پر شیطان کا تجھ سے سامنا ہوتا ہے،تو وہ دوسرا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔‘‘[1] اور ان کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’میرے بعد اگر کسی نے نبی ہونا ہوتا،تو وہ عمر ہوتے۔‘‘[2] ان کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ’’جب سے عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا،ہمیں لوگوں میں عزّت ملی۔‘‘[3] مزید برآں حضرت عمر کو حضرت ابوبکر کے وزیر اور دست راست کی حیثیت حاصل تھی،لیکن یہ بلند و بالا مقام و مرتبہ انہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے احتساب سے نہ بچاسکا اور انھوں نے انصار کا مذکورہ بالا یہ پیغام پہنچانے کی بنا پر ان کا احتساب کیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت فاروق اعظم نے جب یہ اعلان کیا،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے،تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہما نے فوراً ان کا محاسبہ کیا،بلکہ ان کے موقف کے خلاف برملا اعلان کیا اور ان لوگوں پر کڑی تنقید کی،جنھوں نے یہ رائے اختیار کرلی تھی۔[4]
[1] یہ روایت بخاری شریف میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذکور ہے،جزء حدیث نمبر ۳۶۸۳،۷/۴۱۔ [2] یہ روایت جامع ترمذی میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔دیکھئے:ابواب المناقب،حدیث نمبر ۳۶۸۳،۷/۴۱۔شیخ البانی نے اسے[حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي،۳/۲۰۳)۔ [3] صحیح البخاري،کتاب فضائل الصحابۃ،باب مناقب عمر بن الخطاب ابی حفص القرشی العدوي رضی اللّٰهُ عنہ،حدیث نمبر ۳۶۸۴،۷/۴۱۔ [4] دیکھئے:المرجع السابق:کتاب المغازی،باب مرض النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم ووفاتہ،حدیث نمبر ۴۴۵۴،۸/۱۴۵۔