کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 75
[کسی ایمان والے مرد اور ایمان والی عورت کو یہ حق نہیں ہے،کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں،تو پھر ان کو اپنے معاملے میں اختیار حاصل رہے۔اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے،یقینا وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔] یہی مؤقف صحابہ کرام نے اس وقت اختیار کیا،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا،اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سب کے سامنے حق بات واضح کی۔[1] اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد جب خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں اختلاف پیدا ہوا،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کو متنبہ کیا،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا،کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔یہ سن کر انصار کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا،کہ اس شخص کی امارت کو بہ دل و جان تسلیم کریں جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا امام متعین کیا تھا۔[2] امت کے سلف صالحین کا یہی طرزِ عمل رہا،کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوا اور ان کے سامنے حق واضح ہوگیا،تو فوراً انھوں نے حق کے سامنے گردن جھکادی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کے کتنے ہی شواہد ملتے ہیں،جن میں سے چند درج ذیل ہیں: ۱: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چور کا پاؤں کاٹنے کا فیصلہ اس وقت واپس لے لیا،جب انھیں یہ بتایا گیا،کہ یہ فیصلہ سنت کے خلاف ہے۔[3]
[1] ملاحظہ ہو:اس کتاب کا ص ۶۵۔ [2] ملاحظہ ہو:اس کتاب کا ص ۶۷۔۶۸۔ [3] دیکھئے میری کتاب:حکم الإنکار فی مسائل الخلاف ص ۵۹۔