کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 68
’’اے انصار کی جماعت!ٍکیا تمھیں معلوم نہیں،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کو حکم دیا،کہ(نماز میں)لوگوں کی امامت کرے؟ تم میں کون شخص ایسا ہے،جو ابوبکر سے آگے بڑھنا پسند کرتا ہے؟‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سلسلے میں صحابہ کرام کی آراء مختلف ہوئیں،کہ اسے بصورتِ لحد بنایا جائے یا بصورت شق؟(یعنی بغلی ہو یا صندوقی؟) امام ابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے،کہ انھوں نے فرمایا کہ:’’لحد اور شق کے مسئلے پر اتنا اختلاف بڑھ گیا،کہ اس موضوع پر بلند آواز سے باتیں ہونے لگیں۔عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’لَا تَصْخَبُوْا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم حَیًّا وَلَا مَیِّتًا۔‘‘[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شور نہ کرو،آپ کی زندگی میں،نہ آپ کی وفات کے بعد۔‘‘ مانعینِ زکوٰۃ سے قتال کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی آرا مختلف تھیں۔[2] اسی طرح ہمیں اور بھی بہت سے شواہد ملتے ہیں،جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائیں مختلف مسائل میں متصادم ہوئیں۔اس اختلاف کی وجہ یا تو یہ ہوئی،کہ: 1 بعض حضرات کی بعض مسائل میں نص تک رسائی ہوگئی،یعنی انھیں کتاب و سنت کے واضح احکام میسر آگئے اور بعض کو نص معلوم نہ ہوسکی۔ 2 یا کسی صحابی کو کسی مسئلے میں سہو و نسیان ہوگیا۔ 3 یا ضبط و حفظ میں اختلاف رونما ہوگیا۔ 4 یا اس مسئلے کی علّت کو سمجھنے میں اختلاف نے راہ پالی۔
[1] سنن ابن ماجہ،أبواب ما جاء فی الجنائز،باب ما جاء فی الشق،حدیث نمبر ۱۵۵۷،۱/۲۸۵،شیخ البانی نے اسے ’’ حسن‘‘ قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن ابن اجہ ۱/۲۶۰)۔ [2] ملاحظہ ہو:اس کتاب کا ص ۶۶۔