کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 67
-۹- سچے مسلمانوں کے درمیان اختلاف رائے اس واقعے سے یہ بات بھی ہمارے علم میں آتی ہے،کہ بعض معاملات میں سچے مسلمانوں کے درمیان بھی اختلاف رائے پیدا ہوجاتا ہے۔چنانچہ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی ان نازک اور سنگین حالات میں روانگی کے سلسلے میں اختلاف رائے پیدا ہوا،حضرت اسامہ کی امارت کے متعلق بھی مختلف رائیں سامنے آئیں۔ اس سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں اختلاف ابھرا۔[1] پھر اس معاملے میں بھی اختلاف رونما ہوا،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ کسے منتخب کیا جائے؟ امام احمد نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرماگئے،تو انصار نے کہا: ’’مِنَّا أَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیْرٌ۔‘‘ ’’ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے۔‘‘ پھر ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: ’’یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ!ٍأَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم قَدْ أَمَرَ أَبَابَکْرٍ أَنْ یَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَأَیُّکُمْ تَطِیْبُ نَفْسُہُ أَنْ یَتَقَدَّمَ أَبَابَکْرٍ۔‘‘[2]
[1] ملاحظہ ہو:اس کتاب کا ص ۶۵۔ [2] المسند،جزء حدیث نمبر ۱۳۳،۱/۲۱۳،۲۱۴،حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ’’اس کی[سند حسن]ہے۔‘‘(فتح الباری ۱۲/۱۵۳)۔