کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 66
مانعینِ زکوٰۃ کے ساتھ جنگ کے معاملے میں بھی یہی صورت حال پیش آئی۔زیادہ صحابہ کرام کی رائے یہ تھی،جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،کہ ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی چاہیے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا،کہ جنگ کرنی چاہیے۔بلکہ انھوں نے اپنے اس عزم کا یہ فرما کر اعلان کردیا تھا،کہ ’’جو شخص اونٹ کی وہ مہار دینے سے بھی انکار کرے گا،جو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ادا کرتا تھا،میں اس سے ضرور قتال کروں گا۔‘‘[1] اس مسئلے میں اکثریت کی رائے درست نہ تھی۔[2] خلاصۂ کلام یہ کہ حضرت ابوبکر کی طرف سے جیش اسامہ رضی اللہ عنہما بھیجنے کے واقعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی،کہ کسی معاملے میں اکثریت کی تائید،اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔قرآن و سنت کی کثیر نصوص کے علاوہ بہت سے واقعات بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔ 
[1] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰهِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم،حدیث نمبر ۷۲۸۴ و۷۲۸۵؛ وصحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب الأمر بقتال الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللّٰه…،حدیث نمبر ۳۲(۲۰)،۱/۵۱۔۵۲۔نیز دیکھئے:فتوح البلدان للبلاذري ص ۱۰۳۔۱۰۴؛ والکامل ۲/۲۳۱۔ [2] ملاحظہ ہو:فتوح البلدان ص ۱۰۴ ؛ والکامل ۲؍۲۳۱۔