کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 65
میں مبغوض ہوا۔‘‘ لیکن انصار کی رائے کو،اس علوِّ شان،رفعتِ منزلت اور کثرتِ تعداد کے باوجود،اہمیت حاصل نہ ہوئی،کیونکہ وہ نص کے مخالف تھی۔امام نووی فرماتے ہیں،کہ: ’’جب سنت ثابت ہوجائے،تو اس بنا پر اسے ترک نہیں کیا جاسکتا،کہ اسے بعض یا زیادہ یا سب لوگوں نے ترک کردیا ہے۔‘‘[1] یہ حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حادثے کے موقعے پر بھی واضح ہوئی،جب کہ اکثر صحابہ کا جن میں عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،یہ نقطۂ نظر تھا،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے[2]اور صحابہ کی کم تعداد کا نقطۂ نظر یہ تھا،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں،ابوبکر رضی اللہ عنہ انہی حضرات میں شامل تھے۔[3] انھوں نے اکثریت کے نقطۂ نظر کو لائقِ التفات نہیں سمجھا،بلکہ کتاب و سنت سے ثابت شدہ بات کو لیا اور اکثریت کے نقطۂ نظر کی غلطی کو واضح فرمایا۔[4] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں اکثریت کے نقطۂ نظر پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’اس سے یہ نتیجہ نکلا،کہ اجتہاد میں کم تعداد کی رائے درست اور زیادہ افراد کی رائے غلط ہوسکتی ہے۔ہمیشہ اکثریت کی رائے کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔‘‘[5]
[1] شرح النووي ۸/۵۶۔ [2] تاریخ الإسلام(السیرۃ النبویہ)ص ۵۶۷۔ [3] ملاحظہ ہو:فتح الباري ۸/۱۴۶۔ [4] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب الجنائز،باب الدخول علی المیت بعد الموت إذا أُدرج في أکفانہ،جزء حدیث نمبر ۱۲۴۱ و ۱۲۴۲،۳/۱۱۳؛ والمرجع السابق،کتاب المغازي،باب مرض النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم ووفاتہ،حدیث نمبر ۴۴۵۴،۸/۱۴۵۔ [5] فتح الباری ۸/۱۴۶۔