کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 64
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے تجویز سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی داڑھی پکڑ کر فرمایا: ’’اے ابن خطاب!ٍتیری ماں تجھے گم پائے!ٍجس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرِ فوج بنایا،کیا تم مجھے حکم دیتے ہو،کہ میں اس منصب سے اسے علیحدہ کردوں؟‘‘ اس ذات کی قسم!ٍجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا!ٍاگر نص کے مقابلے میں اکثریت کی رائے لائق اہمیت ہوتی،تو ان ابرار و صالحین کی رائے ہوتی،جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’لَوْ اَنَّ الْأَنْصَارَ سَلَکُوا وَادِیًا اَوْ شِعْبًا،لَسَلَکْتُ فِيْ وَادِيْ الْأَنْصَارِ،وَلَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ امْرَئًا مِنَ الْأَنْصَارِ۔‘‘[1] ’’اگر انصار کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں،تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا،اور اگر ہجرت نہ ہوتی،تو میں انصار سے ہوتا۔‘‘ پھر انصار ہی وہ لوگ ہیں،جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اَلْأَنْصَارُ لَا یُحِبُّہُمْ اِلَّا مُؤْمِنٌ،وَلَا یُبْغِضُہُمْ اِلَّا مُنَافِقٌ،فَمَنْ أَحَبَّہُمْ أَحَبَّہُ اللّٰہُ،وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ أَبْغَضَہُ اللّٰہُ۔‘‘[2] ’’انصار سے وہی شخص محبت رکھتا ہے،جو مومن ہے،اور وہی شخص ان سے بغض کرتا ہے،جو منافق ہے۔جس نے ان سے محبت کی،وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ٹھہرا اور جس نے ان سے بغض کا برتاؤ کیا،وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
[1] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب مناقب الأنصار،باب قول النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم ’’لولا الہجرۃ لکنت من الانصار‘‘،جزء حدیث نمبر ۳۷۷۹،عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰهُ عنہ،۷/۱۱۲۔ [2] ملاحظہ ہو:المرجع السابق،باب حب الأنصار من الإیمان،حدیث نمبر ۳۷۸۳ عن أنس رضی اللّٰهُ عنہ،۷/۱۱۳۔