کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 63
کے مطابق فلسطین کی جانب سے جہاد کا آغاز کرو اور اہل موتہ پر حملہ کرو،جن کو تو چھوڑ کر جارہا ہے،اللہ تعالیٰ ان کے لیے کافی ہوگا۔‘‘[1] پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انصار کا یہ پیغام پہنچایا گیا،کہ اس لشکر کا امیر کسی ایسے شخص کو بنایا جائے،جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر کا ہو،تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کو مسترد کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں کئے گئے اپنے فیصلے کو پختہ تر کردیا۔امام طبری نے حسن بن ابوالحسن بصری سے روایت نقل کی ہے،کہ:’’انصار نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا،کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ لشکر بھیجنے پر مصر ہوں،تو ہماری طرف سے انھیں یہ پیغام پہنچایے اور ان سے عرض کیجیے،کہ ہماری اس مہم کی امارت کی ذمہ داری کسی ایسے شخص کے سپرد فرمائیے،جو سن وسال میں اسامہ سے بڑھا ہوا ہو۔‘‘[2] امام ابن اثیر بیان کرتے ہیں،کہ:انصار کے جو مجاہدین اسامہ کے زیر کمان جارہے تھے،انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی،کہ آپ ہماری طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ درخواست پیش کیجیے…[3] اس تجویز کے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ردّ عمل کو امام طبری نے بایں الفاظ روایت کیا ہے: ’’فَوَثَبَ أبوبکر رضی اللّٰهُ عنہ۔وکان جالساً۔فَأَخَذَ بِلِحْیَۃِ عُمَرَ رضی اللّٰهُ عنہ،فَقَالَ لَہُ:’’ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ وَعَدَمَتْکَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ!ٍاِسْتَعْمَلَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم وَتَأْمُرُنِيْ أَنْ أَنْزِعَہُ‘‘۔[4]
[1] تاریخ الإسلام(عہد الخلفاء الراشدین رضی اللّٰهُ عنہم)ص ۲۰۔۲۱۔ [2] تاریخ الطبري ۳/۲۲۶۔ [3] ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۲۶۔ [4] تاریخ الطبري ۳/۲۲۶۔