کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 62
امام ابن اثیر نے اپنی کتاب میں بایں الفاظ ذکر کیا: ’’فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِيْ بَکْرٍ رضی اللّٰهُ عنہ۔‘‘[1] ’’لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا۔‘‘ حافظ ذہبی اپنی تصنیف میں رقم طراز ہیں: ’’فَکَلَّمَہُ رِجَالٌ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ۔‘‘[2] ’’مہاجرین اور انصار کے لوگوں نے ان(ابوبکر رضی اللہ عنہ)سے(اس بارے میں)بات کی۔‘‘ یاد رہے ان لوگوں کی حیثیت معاشرے کے عام لوگوں کی نہ تھی،بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے،جن کا مرتبہ انبیا علیہم السلام کے بعد روئے زمین پر موجود تمام انسانوں میں سب سے بہتر اور بلند تھا،لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی بات نہیں مانی اور یہ واضح کردیا،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مقابلے میں ان سب کی بات کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ان سب کی رائے سے بلند و بالا اور اعلیٰ و افضل ہے۔انھوں نے فرمایا: ’’میرا اس لشکر کو روکنا،جس کے بھیجنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا،بہت بڑی دلیری کی بات ہے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!ٍاسامہ کے لشکر کو روکنے کی بہ نسبت جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا ہے،مجھے یہ پسند ہے،کہ تمام قبائل عرب یکجا ہوکر حملہ کردیں۔اے اسامہ!ٍاس طرف چل پڑو جس طرف روانہ ہونے کا تمھیں بارگاہِ رسالت سے حکم دیا گیا تھا،پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان
[1] الکامل ۲/۲۲۶۔ [2] تاریخ الإسلام(عہد الخلفاء الراشدین رضی اللّٰهُ عنہم)ص ۲۰۔