کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 61
-۸- اکثریت کی خلافِ نص رائے کی کوئی حیثیت نہ ہونا بہت سے لوگ کتاب و سنت کے مخالف اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں،کہ لوگوں کی اکثریت ان کی رائے کی تائید کرتی ہے۔اس قصے سے ہمیں جو سبق حاصل ہوتے ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے،کہ حق وہ ہے،جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،خواہ لوگوں کی اکثریت کی رائے اس کے موافق ہو یا مخالف۔ حضرت ابوبکر نے جب لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کا حکم جاری فرمایا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حالات میں جو تبدیلی اور تغیّر رونما ہوگیا تھا،اس کی بنا پر عام صحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی،کہ لشکر نہ بھیجا جائے۔چنانچہ امام خلیفہ بن خیاط نے ابن اسحاق سے روایت نقل ہے،کہ ابوبکر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے متعلق فرمایا،تو انھوں نے کہا،کہ:’’قبائل عرب آپ سے باغی ہوچکے ہیں اور آپ مسلمانوں کی جماعت کو اپنے سے علیحدہ کرنے کے باعث ان کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے۔‘‘[1] امام طبری اور امام ابن حبان بستی نے اپنی اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے: ’’فَقَالَ لَہُ النَّاسُ۔‘‘[2] ’’ان(ابوبکر رضی اللہ عنہ)سے لوگوں نے کہا۔‘‘
[1] تاریخ خلیفہ بن خیاط ص ۱۰۰۔ [2] ملاحظہ ہو:تاریخ الطبری ۳/۲۲۵؛ والسیرۃ النبویہ وأخبار الخلفاء ص ۴۲۷۔