کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 59
جلاؤ،پھر اس میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ انھوں نے لکڑیاں اکٹھی کیں اور آگ جلائی۔پھر اس میں داخل ہونے لگے،تو کھڑے ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔پھر ان میں سے بعض نے کہا کہ:’’آگ سے بھاگنے کے لیے،تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ہے۔کیا اب پھر اس میں داخل ہوجائیں؟‘‘ اسی اثنا میں آگ بجھ گئی اور ادھر امیر کا غصہ بھی فرو ہوگیا۔ واپس آنے کے بعد یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا گیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہوجاتے،تو کبھی اس سے نکل نہ پاتے۔امیر کی اطاعت صرف نیک بات میں ہوتی ہے۔‘‘ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی معصوم ہوتا،تو اس اعزاز کے سب سے زیادہ مستحق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے،جو انبیا اور رسولوں کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہیں،لیکن بیعتِ عامہ کے بعد انھوں نے جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا،اس میں اپنی معصومیت کی نفی فرمادی۔حضرات ائمہ ابن حبان،ابن اثیر اور ابن کثیر کے بیان کے مطابق انھوں نے اس خطبے میں بایں الفاظ اعلان کیا: اَیُّہَا النَّاسُ!ٍفَإِنِّيْ قَدْ وُلِّیْتُ عَلَیْکُمْ وَلَسْتُ بِخَیْرِکُمْ،فَإِنْ أَحْسَنْتُ فَأَعِیْنُوْنِيْ وَإِنْ أَسَأْتُ فَقَوِّمُوْنِيْ… أَطِیْعُوْنِيْ َما أَطَعْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ،فَإِذَا عَصَیْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَلَا طَاعَۃَ لِيْ عَلَیْکُمْ۔[1]
[1] دیکھئے:السیرۃ النبویہ وأخبار الخلفاء للإمام ابن حبان البستی ص ۴۲۳۔۴۲۴؛ والکامل ۲/۲۲۴۔۲۲۵؛ والبدایۃ والنہایۃ ۶/۳۰۱۔نیز ملاحظہ ہو:مصنف عبد الرزاق،کتاب الجامع،باب لا طاعۃ فی معصیۃ،روایت نمبر ۲۷۰۲،۱۱/۳۳۶؛ وصفۃ الصفوہ ۱/۲۶۰۔۲۶۱۔