کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 57
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۔﴾[1] [اے ایمان والو!ٍاللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو،جو تم میں حکم اور اختیار رکھتے ہوں۔پھر اگر کسی معاملے میں باہم جھگڑ پڑو،تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں لے جاؤ،اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔اسی میں تمھارے لیے بہتری ہے اور اسی میں انجام کار کی خوبی ہے۔] اس بات کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں فرمائی ہے۔انہی میں سے دو حدیثیں درج ذیل ہیں: ۱: امام بخاری نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فِیْمَا أَحَبَّ وَکَرِہَ،مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ،فَإِذَا أُمِر بِمَعْصِیَۃٍ،فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ۔‘‘[2] ’’سمع و اطاعت مسلمان کے لیے ضروری ہے،ہر اس بات میں جسے وہ(ذاتی طور پر)پسند کرے یا ناپسند کرے،جب تک کہ اسے معصیت کے ارتکاب کا حکم نہ دیا جائے۔جب معصیت کے ارتکاب کا حکم دیا جائے،تو سمع و اطاعت کا معاملہ ختم۔‘‘
[1] سورۃ النساء / الآیۃ ۵۹۔ [2] صحیح البخاري،کتاب الأحکام،باب السمع والطاعۃ للإمام مالم تکن معصیۃ،رقم الحدیث ۷۱۴۴،۱۳/۱۲۱۔۱۲۲۔