کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 51
’’جس لشکر کو رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - نے شام کی مہم کے لیے مقرر فرمایا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ابوبکر۔رضی اللہ عنہ۔نے اسے حدودِ شام کی طرف روانہ کردیا۔بلادِ عرب کی مضطرب اور مخدوش حالت کے پیشِ نظر بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تھا،مگر خلیفۂ رسول- صلی اللہ علیہ وسلم - نے ان کو یہ کہہ کر خاموش کردیا: ’’میں اس فیصلے کو بدل دوں،جو رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم - نے صادر فرمایا!(یہ میرے لیے ناممکن ہے)اگر درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں،جب بھی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کروں گا۔‘‘[1] اس کے بعد وہ کہتے ہیں: ’’یہ فوجی مہم اس سلسلہ محاربات کی پہلی کڑی تھی،جس میں عربوں نے شام،ایران اور شمال افریقہ کو فتح کیا۔ایران کی قدیم سلطنت کو تہ و بالا کردیا اور رومیوں سے ان کی سلطنت کے بہترین صوبے چھین لیے۔‘‘[2] لشکرِ اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو جو وقار،عزت و نصرت اور مال غنیمت ملا،اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں،کیونکہ سنتِ الٰہیہ ہے،کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ ان پر اپنی عنایات اور نوازشات فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: ﴿وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔﴾[3]
[1] ملاحظہ ہو:دعوت اسلام ص ۵۰۔ [2] المرجع السابق ص ۵۰۔ [3] سورۃ آل عمران / الآیۃ ۱۳۲۔