کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 50
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،کہ جب یہ لشکر ان قبائل کے پاس سے گزرتا تھا،جو ارتداد کا ارادہ کیے بیٹھے تھے،تو ان میں سے ہر قبیلے کے لوگ یہی کہتے تھے،کہ اگر یہ لوگ طاقت ور نہ ہوتے،تو ان(مدینہ طیبہ کے مسلمانوں)کے پاس سے نہ نکلتے،لیکن اب ہم ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتے،انھیں جانے دیں،یہاں تک کہ یہ رومیوں سے لڑیں۔چنانچہ یہ گئے،رومیوں سے لڑے،انھیں قتل کیا اور شکست دی اور سلامتی کے ساتھ واپس آئے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا،کہ وہ قبائل اسلام پر ثابت قدم رہے۔[1] حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ:’’لشکر اسامہ کی اہل روم پر اس درجہ ہیبت طاری ہوئی،کہ شاہِ روم ہرقل کو جب ایک ہی وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور اس کی سرزمین پر اسامہ رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر پہنچی،تو رومی حیرت زدہ ہوکر پکار اٹھے،کہ: ’’یہ کس قسم کے لوگ ہیں،ان کا سربراہ(رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم)وفات پاجاتا ہے اور یہ ہمارے ملک پر حملہ کر رہے ہیں۔‘‘[2] امام ابن سعد کہتے ہیں کہ: ’’کوئی ایسا لشکر نہیں دیکھا گیا،جو اس لشکر کی طرح ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہا ہوں۔‘‘[3] اس جیش کی اہمیت کے بارے میں بعض غیر مسلموں نے بھی اظہارِ خیال کیا ہے،چنانچہ ٹی۔ڈبلیو آرنلڈ(مستشرق)تحریر کرتا ہے:
[1] ملاحظہ ہو:تاریخ الخلفاء ص ۷۴۔نیز ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۲۷۔ [2] سیر أعلام النبلاء ۲/۵۰۳؛ نیز دیکھئے:تاریخ الإسلام(عہد الخلفاء الراشدین رضی اللّٰهُ عنہم)ص۲۰۔ [3] طبقات ابن سعد ۴/۶۸۔