کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 42
نے حکم دیا تھا۔میرے سوا بستی میں کوئی متنفس باقی نہ رہے،پھر بھی میں یہ لشکر روانہ کروں گا۔‘‘[1] ۲: جب اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کی بنا پر،کہ ان کے لشکر کے جہادِ روم پر روانہ ہونے کے بعد کہیں مرتد قبائل ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اہل مدینہ پر حملہ نہ کردیں،ان سے مقام جرف سے مدینے واپس آجانے کے لیے عرض کیا،تو انھوں نے واپس آنے کی اجازت نہیں دی،بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس عزم صمیم کا اظہار کیا،کہ ’’اگر مجھے کتے اور بھیڑیے بھی اٹھا کر لے جائیں،تب بھی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے سرموانحراف نہیں کروں گا۔‘‘[2] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ موقف اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بالکل مطابق تھا: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا﴾[3] [کسی ایمان والے مرد اور ایمان والی عورت کو یہ حق نہیں ہے،کہ جب اللہ اور اس کا ر سول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں،تو پھر ان کو کوئی اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے،یقینا وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔] ۳: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مضبوطی سے تھامنے کے لیے اس وقت شدید اصرار کا اظہار فرمایا،جب عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس انصار کا یہ پیغام لے
[1] تاریخ الطبري ۳/۲۲۵؛ نیز دیکھئے:تاریخ خلیفہ بن خیاط ص ۱۰۰۔۱۰۱؛ والکامل ۲/۳۲۶۔ [2] ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۲۶۔ [3] سورۃ الأحزاب / الآیۃ ۳۶۔