کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 41
الْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ۔‘‘[1] ’’ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی،کہ دل چاہے یا نہ چاہے،ہر موقع پر ان کا ارشاد سنیں گے اور اس کی پابندی کریں گے۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا وَأَثْرَۃٍ عَلَیْنَا۔‘‘[2] ’’اپنی تنگی اور آسائش کے وقت،اور اس وقت بھی جب وہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)ہمارے مقابلے میں کسی دوسرے کو ترجیح دیں گے(غرضیکہ ہر حال میں ان کی اطاعت کریں گے)۔‘‘ اس واقعہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول و عمل سے ثابت کردیا،کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و اوامر پر حالات کے نازک اور خطرناک ہونے کے باوجود نہایت مضبوطی کے ساتھ کاربند تھے۔اس واقعے میں بہت سی باتیں اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں،جن میں چند باتیں مندرجہ ذیل ہیں: ۱: حالات کے انقلاب و تغیّر کے پیش نظر مسلمانوں نے جب ان سے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا،تو انھوں نے جن الفاظ میں جواب دیا،وہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ نقش رہیں گے۔انھوں نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم،جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے!ٍاگر مجھے یقین ہو،کہ درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے،تب بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کروں گا۔اس پر اسی طرح عمل ہوگا،جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] صحیح البخاري،کتاب الأحکام،باب کیف یبایع الإمام الناس،حدیث نمبر ۷۱۹۹،۱۳/۱۹۲۔ [2] المرجع السابق،کتاب الفتن،باب قول النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم:’’سترون بعدی أموراً تنکرونہا‘‘،جزء حدیث نمبر ۷۰۵۶،۱۳/۵۔