کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 35
ہونے سے پیشتر لوگوں کو مثنیٰ کے ساتھ لڑائی پر بھیج دو۔کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی اس دینی فرض کی ادائیگی اور تمھارے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں تمھارے لیے رکاوٹ کا باعث نہ بنے۔تم نے دیکھا ہے،کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا کیا تھا،حالاں کہ لوگ اس وقت ایسی مصیبت میں مبتلا تھے،جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اللہ کی قسم!ٍمیں اس وقت اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بجا آوری میں دیر کرتا اور کم زوری دکھاتا،تو ہم ذلیل ہوجاتے اور(اللہ تعالیٰ)ہمیں سزا دیتے اور پھر مدینہ آگ کے بھڑکتے شعلوں کی زد میں آجاتا۔‘‘[1] اللہ اکبر!ٍاللہ کے دین کی خدمت کا کس درجہ عظیم الشان جذبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رگ و پے میں موج زن تھا!ٍ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل میں بالکل دیر نہیں لگائی۔انھوں نے بھی تو اسی مدرسہ محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیض پایا تھا،کہ جہاں سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کندن بن کر نکلے تھے۔ جس رات ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی،اسی رات کی صبح کو عمر رضی اللہ عنہ نے اولیں کام یہ کیا،کہ فجر کی نماز سے قبل ہی لوگوں کو مثنیٰ بن حارثہ کی قیادت میں اہل فارس سے جہاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر لوگوں سے بیعتِ خلافت لی اور ساتھ ہی لوگوں کو جہاد کی غرض سے نکلنے کی ترغیب دی۔[2] بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا سانحہ اس وقت امتِ اسلامیہ کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا،لیکن اس سانحہ نے امورِ دین کی بجا آوری میں عمر رضی اللہ عنہ کی راہ میں قطعاً کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر چند گھڑیاں ہی گزری تھیں،کہ انھوں نے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے لوگوں کو تیار کرنا شروع کردیا تھا۔
[1] تاریخ الطبري ۳/۴۱۴۔ [2] ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۹۷؛ نیز دیکھئے:تاریخ الطبري ۳/۴۴۴۔