کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 34
فَمَا زَالَ یَقُوْلُہَا حَتَّی مَا یَفِیْضَ بِہَا لِسَانُہُ۔‘‘[1] ’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرضِ وفات میں یہی ارشاد فرماتے رہے:نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک فرماتے رہے،جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں یہ الفاظ بیان کرنے کی طاقت رہی۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہی سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نصرتِ دین کا سبق سیکھا اور وہ ہمیشہ اور ہر حال میں اسی بات پر قائم اور عامل رہے اور ہم دیکھتے ہیں،کہ دین ہی ان کی حیات طیبہ کا اصل مقصد رہا اور اسی حالت میں وہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ اب آئیے ذرا غور کریں،کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیا وصیت فرمائی: امام طبرانی روایت درج کرتے ہیں،کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مرضِ وفات میں فرمایا:’’عمر کو میرے پاس لاؤ۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ آئے،تو فرمایا: ’’عمر!ٍجو میں کہتا ہوں،وہ سنو اور پھر اس پر عمل کرو۔میرا خیال ہے،کہ میں آج ہی مرجاؤں گا… اور وہ پیر کا دن تھا… اگر میں(دن میں)مرجاؤں،تو تم شام کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو لڑائی کے لیے مثنیٰ[2] کے ساتھ روانہ کردو،اور اگر میری موت کا وقت رات کو آئے،تو تم صبح
[1] سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ما جاء فی ذکر مرض رسول اللّٰهِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم،حدیث نمبر ۱۶۲۵،۱/۲۹۸۔شیخ البانی نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:سنن ابن ماجہ،۱/۲۷۱۔ [2] ثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ عراق کے اسلامی لشکر کے امیر تھے۔ان کا تقرر اس وقت کے امیرِ لشکر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو رومیوں کے خلاف یرموک کی جنگ میں بھیج دینے کے بعد کیا گیا تھا۔مثنیٰ عراق سے ابوبکر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں وہاں کے مسلمانوں اور مشرکوں کے حالات سے مطلع کرنے کی غرض سے مدینہ طیبہ گئے تھے۔(ملاحظہ ہو:تاریخ الطبري ۳/۴۱۱ تا ۴۱۴؛ والکامل ۲/۲۸۴ تا ۲۶۸)۔