کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 33
کو سجدہ گاہ بنالیا ہے۔‘‘ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں(امت کو)ان اُمور سے ڈرا رہے تھے،جن کے وہ(یہود و نصاریٰ)مرتکب ہوئے۔‘‘[1] پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں،کہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوتے اور عالَم جاودانی کو روانہ ہوتے وقت آپ کی زبان مبارک سے وہی الفاظ سنے جاتے ہیں،جن سے دین اسلام کی تبلیغ کے اہتمام کا پورا پورا اظہار ہوتا ہے۔امام ابن ماجہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں،کہ: ’’دنیوی زندگی کے آخری وقت میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں سانس کی گھڑگھڑاہٹ محسوس ہوتی تھی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کو یہ وصیت تھی: ’’اَلصَّلَاۃَ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘[2] ’’نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم … فَدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ… مسلسل اسی وصیت کا اعادہ کرتے رہے،یہاں تک کہ آپ کی زبان مبارک میں ان الفاظ کے ادا کرنے کی طاقت نہ رہی۔ امام ابن ماجہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کرتے ہیں،کہ ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم کَانَ یَقُوْلُ فِيْ مَرَضِہِ الَّذِيْ تُوَفِّيِ فِیْہِ:’’اَلصَّلَاۃَ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔‘‘
[1] صحیح البخاري،کتاب الصلوٰۃ،باب،حدیث نمبر ۴۳۵ و ۴۳۶،۱/۵۳۲۔ [2] سنن ابن ماجہ،أبواب الوصایا،باب وہل أوصٰی رسول اللّٰهِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم ؟ حدیث نمبر ۲۷۳۰،۲/۱۱۴۔شیخ البانی نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن ابن ماجہ ۲/۱۰۹)۔