کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 32
قبیلے مدینے پر حملہ نہ کردیں۔یہ ساری صورتِ حال ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کی گئی،لیکن وہ ان تمام مشکلات کے باوجود دین کی سر بلندی کے مشن کو پوری کوشش کے ساتھ جاری رکھنے پر مصر رہے اور اس موقع پر انھوں نے ایک ایسی بات فرمائی،جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ نقش رہے گی۔فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے!ٍاگر مجھے یہ یقین ہو،کہ بستی میں میرے سوا کوئی نہیں رہے گا اور درندے مجھے پھاڑ ڈالیں گے،تب بھی میں اسامہ کی فوج کو ضرور روانہ کروں گا۔‘‘[1] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کوئی تعجب خیز بات نہیں،اس لیے،کہ ان کی تربیت عالَم بشریت کے سب سے بڑے معلّم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی تھی،کہ وہ عسر و یسر کے تمام حالات میں دینِ حق کی تقویت و ترویج کا اہتمام جاری رکھیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے اس بارے میں تلقین ہی کو کافی نہیں سمجھا،بلکہ عملی نمونہ بھی ان کے سامنے پیش فرمایا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ارتکابِ شرک سے ہر وقت ڈراتے ہیں،حتیٰ کہ آخری وقت میں جب بیماری شدت اختیار کرلیتی ہے،تو تب بھی لوگوں کو شرک سے دامن کشاں رہنے کی تلقین فرماتے ہیں،اس کا ثبوت حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی حدیث سے ملتا ہے،کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقتِ وفات کے قریب،جب چہرہ مبارک اپنی چادر سے لپیٹے ہوئے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کی وجہ سے گرمی محسوس فرمائی،تو چہرے سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا: ’’یہود اور نصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو،کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں
[1] تاریخ الطبري ۳/۲۲۵۔