کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 31
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے شدید تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی کیجئے،کہ وہ کسی شخص کی موت پر اظہار افسوس کرتے،تو فرمایا کرتے: ’’تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کو یاد کرو،اس سے تمھاری مصیبت کم ہوجائے گی اور اللہ تمھارا اجر بڑھا دے گا۔‘‘[1] سوال یہ ہے کہ اس مصیبت عظمیٰ نے ان کو دینی کام پر عمل پیرا ہونے سے روکا یا اسے مرکزِ اعتنا بنانے میں کوئی کمی پیدا کی؟ ہرگز نہیں!ٍاس ذات کی قسم،جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا!ٍبلکہ ہم دیکھتے ہیں،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیسرے دن وہ منادی کرنے والے کو حکم دیتے ہیں،جو یہ اعلان کرتا ہے،کہ لشکر اسامہ کے تمام فوجی اپنے لشکر گاہ جرف میں پہنچ جائیں،تاکہ انھیں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اس طرف روانہ کردینے کا کام تکمیل کو پہنچ جائے،جس طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ کرنا چاہتے تھے۔[2] پھر مصیبت صرف یہی نہ تھی،کہ اللہ رب العالمین کے خلیل،نبیوں کے امام،رسولوں کے قائد اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے محبوب فوت ہوچکے تھے،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حالت یہ تھی،کہ ارتداد کے فتنے نے سر اٹھالیا تھا،نفاق پھوٹ پڑا تھا،یہود و نصاریٰ خوشی سے اچھل کر میدان میں آگئے تھے اور مسلمان خوف زدہ ہوگئے تھے،کہ کہیں مرتد
[1] ملاحظہ ہو:تاریخ الخلفاء از امام سیوطی ص ۹۵۔ [2] ملاحظہ ہو:اس کتاب کا ص ۱۵۔