کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 30
-۲- مشکلات کا اہل ایمان کو دینی کاموں سے نہ روکنا اس واقعہ سے حاصل ہونے والا ایک درس یہ ہے،کہ شدائد و مصائب کے سلسلے کا بڑھ جانا اور مشکلات کے دامن کا پھیل جانا دین حق کی تبلیغ کے لیے اہل ایمان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔غور کیجیے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سانحۂ وفات مسلمانوں کے لیے کس قدر الم ناک اور کس درجہ غم انگیز تھا،بالخصوص آپ کے رفیقِ غار حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے،تو یہ غم انتہائی شدید تھا،کیونکہ وہ مردوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھے۔[1] وہ تو اس وقت اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے،جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے اشارے سے یہ محسوس کیا،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رفیقِ اعلیٰ کی طرف تشریف لے جانے والے ہیں۔[2]
[1] اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جاسکتا ہے،جو کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ذات السلاسل کے لشکر میں بھیجا،تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔عرض کیا:’’آپ کے نزدیک سب سے زیادہ لائق محبت کون ہے؟‘‘ فرمایا:’’عائشہ!‘‘ عرض کیا:’’مردوں میں؟‘‘ فرمایا:’’ان کا باپ۔‘‘(صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابہ،باب ’’لو کنت متخذا خلیلا‘‘،حدیث نمبر ۳۶۶۲،۷/۱۸؛ وصحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابہ،باب فضائل أبي بکر الصدیق رضی اللّٰهُ عنہ،حدیث نمبر ۸۔(۲۳۸۴)،۴/۱۸۵۶)۔ [2] اس کا پتا اس حدیث سے چلتا ہے،جو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے،کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ:’’اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے،کہ وہ چاہے،تو دنیا کی نعمتوں کو پسند کرلے اور چاہے،تو ان نعمتوں کو پسند کرلے،جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ان دونوں کے درمیان پسندیدگی کا اختیار ملنے کے بعد اس نے بارگاہِ الٰہی کی نعمتوں کو پسند کرلیا۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سن کر ابوبکر رو پڑے اور عرض کیا:’’ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔‘‘ ہم نے ان کے اس قول پر تعجب کیا اور لوگوں نے کہا:’’اس شخص کو دیکھو،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیں یہ بتا رہے ہیں،کہ اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور اپنی بارگاہِ اعلیٰ کی نعمتوں میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کا اختیار دیا اور یہ شخص کہہ رہا ہے۔’’ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔‘‘ حقیقت یہ ہے،کہ یہ اختیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا،اور یہ بات ہم میں سے سب سے زیادہ سمجھنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘(صحیح البخاري،مناقب الأنصار،باب ہجرۃ النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم وأصحابہ إلی المدینۃ،حدیث نمبر ۳۹۰۳،۷/۲۲۷)۔