کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 28
شاعر کہتا ہے فَیَوْمٌ لَنَا وَیَوْمٌ عَلَیْنَا وَیَوْمٌ نُسَائُ وَیَوْمٌ نُسَرُّ[1] ’’کوئی دن ہماری فتح کا مژدہ لے کر آتا ہے اور کوئی دن شکست کی خبر سناتا ہے۔کسی دن ہمیں افسردہ کردیا جاتا ہے اور کسی دن خوش کردیا جاتا ہے۔‘‘ مردِ مومن کا فرض ہے،کہ وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہونے اور کسی مصیبت کے نازل ہونے پر صبر سے کام لے،اسے یاد رکھنا چاہیے،کہ اللہ کی نصرت،صبر ہی سے وابستہ ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہونا شیوۂ مومن نہیں۔ ﴿إِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ۔﴾[2] [یقینا اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔] مسلمانوں کو یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے،کہ تکلیف جس قدر بھی بڑھ جائے،مصیبت میں کتنی شدت بھی آجائے اور اذیت کا سلسلہ کتنا دراز بھی ہوجائے،لیکن سنتِ الٰہیہ یہ ہے،کہ: ﴿فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔﴾[3] [بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔] رات جس قدر بھی لمبی ہوجائے اور اس کی تاریکی جتنی بھی بڑھ جائے،اس کے بعد دن کی روشنی ضرور نمودار ہوتی ہے۔مسلمان کا فرض ہے،کہ وہ باطل کے مقابلے کے لیے ڈٹ جائے اور حق پر ثابت قدم رہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقا کو حکم دیا:
[1] ملاحظہ ہو:تفسیر القرطبي ۴/۲۱۸۔ [2] سورۃ الأعراف / الآیۃ ۵۶۔ [3] سورۃ الم نشرح/الآیتین ۵۔۶۔