کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 27
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ﴾[1] [اور یہ دن ہیں،کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔] امام رازی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں،کہ لوگوں میں دنیا کے دن بدلنے کے معنے یہ ہیں،کہ نہ ان کی خوشیاں ہمیشہ رہتی ہیں اور نہ تکالیف۔کسی دن انھیں خوشی حاصل ہوجاتی ہے اور ان کا دشمن غمی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کسی دن معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔کوئی چیز ایک ہی حال پر نہیں رہتی اور نہ اس کے آثار کو دوام حاصل ہے۔[2] یہاں ﴿نُدَاوِلُہَا﴾ مضارع کا صیغہ استعمال ہوا ہے،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے،کہ ایامِ اقوام کی تبدیلی اور ان کے تغیرِ احوال کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور یہ تغیرِ احوال ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اسی سلسلے میں قاضی ابوسعود لکھتے ہیں،کہ: ’’مضارع کا صیغہ اس پر دلالت کناں ہے،کہ قومیں آگاہ رہیں،کہ ان میں تجدد و استمرار کا سلسلہ ہر صورت میں جاری رہے گا اور یہ ایک ایسا ربانی معاملہ ہے،جو قوموں کو پیش آتا اور لازماً ان میں باقی رہتا ہے۔‘‘[3] کہا جاتا ہے،کہ: ’’اَلْاَیَّامُ دُوَلٌ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ۔‘‘[4] ’’دن بدلتے رہتے ہیں اور لڑائی میں فتح و شکست کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں۔‘‘
[1] سورۃ آل عمران / جزء من الآیۃ ۱۴۔ [2] ملاحظہ ہو:التفسیر الکبیر ۹/۱۵؛ نیز دیکھئے:تفسیر قرطبی ۴/۲۱۸۔ [3] تفسیر ابي السعود ۲/۸۹۔ [4] ملاحظہ ہو:روح المعانی ۴/۶۸۔