کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 25
فتح مکہ کے وقت اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار پاک جاں بازوں پر مشتمل تھی،جب کہ اس کے صرف ایک سال بعد غزوۂ تبوک میں تیس ہزار مجاہد شامل تھے۔اس کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر ہم دیکھتے ہیں،کہ مسلمانوں کا ایک بحرِ بے کراں ہے،جو ٹھاٹھیں مارتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جارہا ہے اور دور دور تک ان کی لبیک و تکبیر اور تسبیح و تحمید کی آوازوں کی گونج سنائی دی جارہی ہے۔[1] اب عرب کے لوگوں کی حالت یہ ہوگئی کہ وہ تقدیر و اجلال کے جذبات کے ساتھ مدینے کی طرف دیکھنے لگے اور سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی راستہ ان کے سامنے نہ رہا۔مدینہ طیبہ جزیرۂ عرب کا دارالخلافہ بن گیا،جس کو نظر انداز کردینا اہل عرب کے لیے ممکن نہ رہا۔[2] پھر ایک وقت آتا ہے،کہ حالات یکایک بدلتے اور کروٹ لیتے ہیں اور ایسے قالب میں ڈھل جاتے ہیں،جس کا ذکر امام طبری نے اس روایت میں کیا ہے،جو ہشام بن عروہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں،کہ انھوں نے کہا: ’’جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت کی گئی اور انصار ابتدا میں اختلاف کے بعد،خلافتِ صدیق رضی اللہ عنہ پر متفق ہوگئے،تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ کرنے کا مرحلہ طے کیا جائے۔‘‘ اس وقت عرب کے ہر قبیلے کے زیادہ یا کم افراد ارتداد کی راہ پر چل پڑے تھے اور ان میں نفاق پیدا ہوگیا تھا،اور یہود و نصاریٰ سر اونچے کرکے بغلیں بجانے لگے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے اور مسلمان اپنی قلت تعداد اور دوسروں کی کثرتِ تعداد کی بنا پر اس طرح ہوگئے تھے،جیسے بارش کی سرد رات میں
[1] ملاحظہ ہو:الرحیق المختوم از شیخ صفی الرحمن مبارک پوری،ص۴۴۴۔ [2] ملاحظہ ہو:المرجع السابق ص ۴۵۴۔