کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 24
-۱- حالات میں تغیر و تبدل کا ہونا اس واقعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے،کہ حالات کی رفتار ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی،حالات میں انقلاب و تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔جو حالات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے تھے،آپ کی وفات کے بعد یکسر تبدیل ہوگئے۔پہلے اسلام اور مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی،کہ وہ ترقی اور عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے اور لوگ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہورہے تھے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ۔وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۔فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔﴾[1] ’’جب اللہ کی مدد آپہنچی اور فتح حاصل ہوگئی اور تم نے دیکھ لیا،کہ لوگوں کے غول کے غول اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔‘‘ ۹ ہجری میں یہ صورت حال تھی،کہ مختلف علاقوں سے وفود عرب کامل اطاعت و فروتنی کا اظہار کرتے ہوئے مسلسل اسلام کی طرف آرہے تھے اور اس سال اتنی کثرت کے ساتھ وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،کہ اس سال کا نام ہی ’’عام الوفود‘‘[2] پڑگیا۔[3]
[1] سورۃ النصر/الآیتان ۱و۳۔ [2] وفود کا سال۔ملاحظہ ہو:جوامع السیرۃ از امام ابن حزم ص ۲۵۹۔ [3] ملاحظہ ہو:السیرۃ النبویہ الصحیحہ ص ۵۴۱۔