کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 17
کی خدمت میں ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچائیے،کہ وہ ہمارے اس لشکر کا امیر کسی ایسے شخص کو مقرر فرمائیں،جو اسامہ سے زیادہ عمر کا ہو۔[1] بارگاہِ صدیقی سے دونوں درخواستیں مسترد: عمر بن خطاب یہ دونوں درخواستیں لے کر ابوبکر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔پہلے انھوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی درخواست پیش کی۔اس کے جواب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اگر جنگل کے کتے اور بھیڑیے مجھے اٹھا کر لے جائیں،تو بھی میں وہ کام کرنے سے نہیں رکوں گا،جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا تھا۔میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی ہرگز مخالفت نہیں کروں گا،اگرچہ ان بستیوں میں میرے سوا کوئی متنفس باقی نہ رہے۔‘‘ یہ قطعی جواب سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کا نقطۂ نگاہ پیش کیا،کہ ’’اس لشکر کی روانگی اگر ضروری ہے،تو اس کا عہدۂ امارت کسی ایسے شخص کے سپرد کیا جائے،جو سن وسال کے اعتبار سے اسامہ سے بڑا ہو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ کے یہ دونوں پیغام پہنچاتے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔دوسرا پیغام سنتے ہی وہ جگہ سے اٹھے اور کھڑے ہوکر غصے کی حالت میں عمر رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر فرمایا: ’’اے عمر!ٍتیری ماں تجھے گم پائے۔اسامہ کو اس امارت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے اور تم مجھے حکم دیتے ہو،کہ میں اسے منصب سے الگ کردوں۔‘‘ ابوبکر کا یہ دو ٹوک جواب سن کر عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کے پاس آئے۔
[1] ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۲۶۔