کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 12
تھیں،ایک رومی فوج تھی اور دوسری طاقت ان نصاریٰ کی تھی،جو عرب سے نقل مکانی کرکے شام کے علاقے میں آباد ہوئے تھے اور رومی حکومت کے ماتحت زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس معرکے میں جب زید رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے،تو علم قیادت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا۔ان کی شہادت کے بعد عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ مسلمان فوج کے قائد مقرر ہوئے اور جب وہ بھی درجہ شہادت کو پہنچے،تو لشکرِ اسلامی کی زمامِ قیادت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔انھوں نے مسلمان فوج کو دشمن کے گھیرے سے نکالا اور اسے مدینہ طیبہ لے آئے۔[1] نوہجری کے ماہِ رجب میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رومیوں سے جہاد کے لیے نکلے[2] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مسلمان فوج مدینے سے روانہ ہوکر مقام تبوک[3] تک پہنچ گئی،لیکن نہ رومی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے اور نہ عرب کے نصرانی قبائل میدان میں نکلے۔قیام تبوک کے دوران میں متعدد قصبات و قبائل کے امرا و حکام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے جزیہ ادا کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی[4] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لشکر بیس دن تبوک میں قیام کے بعد مدینہ طیبہ واپس آگیا۔[5]
[1] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب المغازی،باب غزوۃ مؤتہ من أرض الشام،۷/۵۱۰؛ وفتح الباري ۷/۵۱۱؛ والسیرۃ النبویۃ الصحیحۃ از ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری ۲/۴۶۷۔۴۷۰۔ [2] ملاحظہ ہو:فتح الباری ۸/۱۱۱۔ [3] تبوک،حجاز سے بجانب شمال واقع ہے اور موجودہ دور میں مدینے سے ۷۷۸ کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ [4] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب الجزیۃ والموادعۃ،باب إذا وادع الامام ملک القریۃ ہل یکون ذلک لبقیتہم؟ ۶/۲۶۶؛ والسیرۃ النبویۃ الصحیحۃ ۲/۵۳۵،والسیرۃ النبویۃ فی ضؤء المصادر الاصلیۃ،از ڈاکٹر مہدی رزق اللّٰه،ص ۲۶۹۔ [5] ملاحظہ ہو:موارد الظمآن إلی زوائد ابن حبان،کتاب المواقیت،باب مدۃ القصر،روایت نمبر ۵۴۶،ص ۱۴۵،والسیرۃ النبویۃ الصحیحہ ص ۵۳۵۔