کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 115
ہم نے کہا:’’تم امان کے ساتھ پلٹ جاؤ‘‘(تمھارے اپنی بستی تک پلٹنے تک غلام کا دیا ہوا امان جاری رہے گا)۔ انھوں نے کہا:’’ہم ہرگز واپس نہیں جائیں گے۔‘‘ ہم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں لکھا:تو انھوں نے جواباً تحریر فرمایا: ’’مسلمان غلام مسلمانوں کا فرد ہے،اس کی دی ہوئی امان مسلمانوں کی دی ہوئی امان قرار دی جائے گی۔‘‘ راوی نے کہا:’’اس طرح وہ مالِ غنیمت جو ہمارے قبضے میں آنے والا تھا ہاتھ سے جاتا رہا۔‘‘[1] تاریخ طبری میں مرقوم ہے،کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف یہ خط لکھا: ’’اللہ تعالیٰ نے ایفائے عہد کو بہت بڑی بات قرار دیا ہے۔تم اس وقت تک وفادار نہیں کہلا سکو گے،جب تک وفا نہیں کرو گے،شک کی صورت میں ان سے وفا کا رویہ اختیار کرو،اور ان سے واپس آجاؤ۔‘‘[2] یہ قصہ ہمیں بتاتا ہے،کہ مسلمانوں نے مسلسل ایک ماہ سے اس بستی کا محاصرہ کر رکھا تھا۔انھیں یہ توقع تھی،کہ یہاں سے مالِ غنیمت ہاتھ لگے گا،لیکن انھیں بتائے بغیر جب ایک غلام نے انھیں امان دے دی،تو امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کی دی ہوئی امان کو برقرار رکھا۔ مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ ایفائے عہد کے اور بھی بہت سے ایسے شواہد ہیں،لیکن اختصار کی غرض سے انہی چار شواہد کے بیان کرنے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
[1] المصنف،کتاب الجہاد،باب الجوار وجوار العبد والمرأۃ،روایت نمبر ۹۴۰۲،۵/۲۲۲۔۲۲۳۔اسی طرح امام سعید بن منصور نے بھی روایت کیا ہے۔دیکھئے:سنن سعید بن منصور،کتاب الجہاد،باب ما جاء فی أمان العبد ۲/۲۳۳۔ [2] تاریخ الطبري ۴/۹۴۔