کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 114
آپ نے فرمایا:’’وہ ہوگا بادشاہ،لیکن میں بدعہدی نہیں کروں گا‘‘ چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا۔[1] یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں،کہ دشمن کے امیرِ لشکر کو قتل کردینا،دشمن کی شکست کا باعث اور لشکرِ اسلام کے حوصلے بلند کرنے کا سبب بنتا ہے،لیکن ابوعبیدہ نے ایفائے عہد کو عہد شکنی پر ترجیح دی،ایرانی لشکر کے امیر کو قتل کرنے کی تجویز سے موافقت نہیں کی،کیونکہ ایک مسلمان نے اس کو امان دے رکھی تھی،اگرچہ یہ امان لاعلمی میں دی گئی تھی۔ د:امام عبد الرزاق نے فضیل رقاشی سے روایت کی ہے،انھوں نے بیان کیا:’’میں ایران کی بستیوں میں سے ایک بستی کے محاصرے کے موقع پر موجود تھا۔اس بستی کا نام ’’شاھرتا‘‘ تھا۔ہم نے پورا ایک مہینہ اس کا محاصرہ جاری رکھا۔ایک روز ہم نے دوسرے دن صبح کے وقت ان پر یلغار کا ارادہ کیا۔جب ہم دوپہر کے وقت واپس آئے،تو ایک غلام پیچھے رہ گیا۔ایرانیوں نے اس سے امان طلب کی،تو اس نے ان کے لیے امان لکھ کر خط تیر سے باندھا اور ان کی طرف پھینک دیا۔جب ہم ان کی طرف واپس آئے،تو وہ اپنے سادہ کپڑوں میں نکل کر باہر ہمارے سامنے آگئے اور اپنے ہتھیار نیچے رکھ دیے۔ ہم نے کہا:’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ انھوں نے جواب دیا:’’اس لیے کہ تم نے ہمیں امان دے دی۔‘‘ انھوں نے وہ تیر نکال کر ہمارے سامنے کردیا،جس کے ساتھ امان کی تحریر بندھی ہوئی تھی۔ہم نے کہا:’’یہ غلام ہے اور غلام کو تو کچھ(معاہدے)کرنے کا اختیار نہیں۔‘‘ انھوں نے کہا:’’ہم تمھارے غلام اور آزاد کے فرق کو نہیں جانتے،وہ تو امان کی بنیاد پر نکلے ہیں۔‘‘
[1] دیکھئے:الکامل ۲/۲۹۹۔نیز ملاحظہ ہو:تاریخ الطبري ۳/۴۴۹۔