کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 113
۱: مجاعہ بن مرارہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو دھوکا دیا تھا،کیونکہ اس نے ان سے کہا تھا،کہ قلعوں میں لوگ بھرے ہوئے ہیں۔مگر صورتِ حال یہ تھی،کہ ان میں عورتیں،بچے اور کمزور لوگ ہی تھے۔ ۲: دوسرا سبب یہ تھا،کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنوحنیفہ پر قابو پانے کے بعد ان کے بالغ افراد کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان دونوں اسباب کے باوجود ایفائے عہد کو ترجیح دی۔ ج:فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایرانی سپہ سالار رستم نے جابان کو ایک لشکر کا قائد مقرر کیا تھا،اس کا مقابلہ نمارق کے مقام پر،جو حیرہ اور قادسیہ کے درمیان واقع تھا،ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے ہوا۔اہل ایران ہزیمت اٹھا کر بھاگ گئے اور جابان کو قید کرلیا گیا۔[1] اسے مطر بن فضہ التیمی نے گرفتار کیا تھا۔جابان نے ان کو دھوکا دیا اور کہا،کہ:’’کیا یہ ممکن ہے،کہ آپ میری جان بخشی کردیں،تو میں اس کے بدلے میں دو نو عمر چاق و چوبند غلام آپ کے حوالے کردوں گا؟‘‘ انھوں نے اس شرط پر اسے چھوڑ دیا۔دوسرے مسلمان اسے پکڑ کر ابوعبیدہ کے پاس لے آئے اور ان کو بتایا کہ یہ ’’جابان‘‘ ہے اور انھوںنے اسے قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ ابوعبیدہ نے ارشاد فرمایا کہ:’’مجھے اسے قتل کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے،کیوں کہ ایک مسلمان نے اس کو امان دی ہے اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی محبت اور مدد کرنے میں ایک جسم کی مانند ہیں،جو ایک کی ذمہ داری ہے،وہ سب کی ذمہ داری ہے۔‘‘ انھوں نے کہا:’’وہ تو بادشاہ ہے‘‘
[1] ملاحظہ ہو:البدایۃ والنہایۃ ۷/۲۷۔