کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 112
موجودگی اور دوبارہ لڑائی کی حالت میں کیا ہونے والا ہے۔مدینہ طیبہ کے رہنے والے مہاجرین اور انصار میں سے تین سو ساٹھ افراد قتل ہوچکے تھے۔مدینہ طیبہ کے لوگوں کے علاوہ دوسرے مہاجرین میں سے تین سو افراد قتل ہوگئے تھے۔ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ بھی جام شہادت نوش کرچکے تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سونے،چاندی،ہتھیار اور نصف یا ایک چوتھائی قیدیوں کی شرط پر صلح کرلی۔ جب قلعوں کے دروازے کھولے گئے،تو وہاں صرف عورتیں،بچے اور کمزور لوگ موجود تھے،خالد بن ولید نے مجاعہ بن مرارہ سے کہا:’’اے کم بخت تو نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ اس نے کہا:’’وہ میری قوم ہے،جو کچھ میں نے کہا،اس کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتا تھا۔‘‘[1] سلمۃ بن سلامہ بن وقش اسی اثناء میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خط بنام خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لے کر پہنچ گئے۔اس خط میں خالد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تھا،کہ وہ بنو حنیفہ کے بالغ افراد کو قتل کردیں۔[2] پیغام رساں ان کے پاس پہنچا،تو دیکھا کہ انھوں نے ان سے صلح کرلی ہے،خالد رضی اللہ عنہ نے معاہدے کو پورا کیا اور عہد شکنی نہ کی۔[3] اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اگر چاہتے،تو دو وجوہ کی بنا پر معاہدہ توڑ سکتے تھے:
[1] ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۴۷۔ [2] ملاحظہ ہو:تاریخ الطبري ۳/۲۹۹۔ [3] ملاحظہ ہو:الکامل ۲/۲۴۷۔