کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 111
کے روادار نہ تھے،خواہ وہ ہدیہ کے نام سے ہی کیوں نہ پیش کی گئی ہو۔ ب:جب اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مسیلمہ کذاب قتل ہوا اور بنوحنیفہ نے شکست کھائی،تو مجاعہ بن مرارہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’آپ کے مقابلے میں تو ہمارے کچھ جلد باز قسم کے لوگ آئے،ابھی تو قلعے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔‘‘ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ارے کم بخت کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا:’’اللہ کی قسم!ٍمیں درست کہہ رہا ہوں۔آئیے میرے ذریعے میری قوم سے صلح کرلیں۔‘‘ اس نے جان کے علاوہ ہر چیز پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی۔پھر کہنے لگا:’’میں ان(اپنی قوم)کے پاس جاتا ہوں،تاکہ ان سے مشورہ کرلوں۔‘‘ وہ ان کے پاس گیا۔قلعوں میں عورتوں،بچوں،بڑے بوڑھوں اور کمزور مردوں کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔اس نے ان سب کو ہتھیار پہنادئیے اور عورتوں کو حکم دیا،کہ اپنے بال کھول کر قلعوں کے اوپر سے جھانکتی رہیں،یہاں تک کہ وہ ان کی طرف واپس آئے۔ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف واپس پلٹا اور کہنے لگا:’’انھوں نے آپ سے میرے طے شدہ معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور اس معاہدے کو توڑنے اور اس سے براء ت کا اظہار کرنے کی غرض سے کچھ لوگ قلعوں کے اوپر سے آپ کے سامنے بھی آئے ہیں۔‘‘ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سمجھا،کہ قلعے مردوں سے بھرے ہوئے ہیں اور لڑائی نے مسلمانوں کو تھکا دیا تھا۔لڑائی کافی لمبی ہوگئی تھی،اب ان کی دلی خواہش یہ تھی،کہ ایسی صورت میں وہ پلٹیں کہ کامیاب ہوں۔وہ نہیں جانتے تھے،کہ قلعوں میں مردوں کی