کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 110
۱: خیانت اور مال غنیمت کے چرانے سے بچنا۔ ۲: دھوکا دہی سے اجتناب کرنا۔ ۳: مقتول کا ناک،کان کاٹنے سے احتراز کرنا۔ ۴: بچوں کو قتل کرنے سے باز رہنا۔ ۵: بوڑھوں کو قتل کرنے سے رکنا۔ ۶: عورتوں کو قتل کرنے سے اجتناب کرنا۔ ۷: درختوں کو تلف کرنے سے باز رہنا۔ ۸: جانوروں کو بلا مقصد ذبح کرنے سے احتراز کرنا۔ ۹: جو شخص لڑائی میں شریک نہیں اس سے اعراض برتنا۔ ۱۰: کھانا کھاتے وقت ذکرِ الٰہی کرنے کا اہتمام کرنا۔ ۱۱: مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں شریک ہونے والوں کو قتل کردینا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وصیت محض دلکش کلمات کا مجموعہ ہی نہ تھی،بلکہ مسلمانوں نے،ان کے دورِ حکومت میں اور اس کے بعد اس پر عمل کیا۔ قارئین کے فائدے کے لیے چند شواہد اور مثالیں درج کی جاتی ہیں۔ ا:امام طبری روایت نقل کرتے ہیں،کہ ’’خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ہذیل کاہلی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں فتح کی خوشخبری اور تحائف بھیجے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ تحائف بصورت جزیہ وصول فرمائے اور خالد رضی اللہ عنہ کو لکھا،کہ اگر انھوں نے پہلے سے ان تحائف کو جزیہ میں شمار نہ کیا ہو،تو ان کا شمار جزیے میں کریں۔‘‘[1] اللہ اکبر!ٍصدیق اکبر رضی اللہ عنہ دشمنوں کے ساتھ معاملات میں بھی کس قدر عدل و انصاف کو پیشِ نظر رکھا کرتے تھے۔وہ ان سے جزیہ سے زیادہ کوئی چیز وصول کرنے
[1] تاریخ الطبري ۳/۳۶۲۔