کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 11
مبحث اوّل: ابوبکر کا جیش اسامہ رضی اللہ عنہما روانہ کرنا تمہید: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جن دو بڑی سلطنتوں کی سرحدیں جزیرۃ العرب کے ساتھ ملتی تھیں،ان میں سے ایک رومی سلطنت تھی۔جزیرۂ عرب کے شمالی حصے کے بہت بڑے علاقے پر اس کا قبضہ تھا،وہاں کے امرا رومی سلطنت کی طرف سے مقرر کیے جاتے تھے،جو کہ اس کے احکام کی تعمیل بجالاتے اور اس کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علاقوں میں دعوتِ اسلام کے لیے اپنے نمائندے اور قاصد بھیجے تھے۔شاہِ روم ہرقل کی طرف حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو اپنا دعوتی مکتوب دے کر بھیجا۔[1] لیکن ہرقل،اس کے وزیروں اور امرا نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ حق قبول نہ کی اور دوسرے لوگوں کو بھی قبول حق سے روکنے اور راہِ رب پر گامزن ہونے سے باز رکھنے کی جدوجہد کرنے لگے۔ آٹھ ہجری کے ماہِ جمادی الاولیٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ملکِ شام کی طرف ایک لشکر روانہ کیا،جس کے نتیجے میں مؤتہ کے مقام پر معرکہ کارزار گرم ہوا۔مسلمانوں کے مقابلے میں دو طاقتیں میدان میں کھڑی
[1] ملاحظہ ہو:صحیح البخاري،کتاب بدء الوحی،باب،حدیث نمبر ۷،۱/۳۱۔۳۲۔