کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 105
دو نو عمر جوانوں کو دیکھا۔میں نے ان کے درمیان ہونے کے سبب اپنے آپ کو پر امن محسوس نہ کیا۔ایک نے اپنے ساتھی سے بات چھپاتے ہوئے،مجھ سے کہا: ’’چچا جان!ٍمجھے ابوجہل دکھلائیے۔‘‘ میں نے کہا:’’بھتیجے!ٍتجھے اس سے کیا کام ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’میں نے اللہ سے عہد کیا ہے،کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا،تو اسے قتل کردوں گا یا خود مارا جاؤں گا۔‘‘ دوسرے نے بھی اپنے ساتھی سے بات چھپاتے ہوئے،مجھ سے یہی کہا۔ اب مجھے ان کے بجائے کسی دوسرے دو آدمیوں کے درمیان ہونا پسند نہ تھا۔میں نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،کہ:’’وہ ہے تمھارا ہدف۔‘‘ ’’وہ باز کی طرح اس پر جھپٹے،یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔‘‘ رضی اللہ عنہم۔[1] حکومتِ اسلامیہ کے انتظامی اُمور: اسی طرح نوجوان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تفویض کردہ انتظامی امور کو نہایت حسن و خوبی سے سر انجام دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو یمن سے خمس کی وصولی کے منصب پر متعین کیا [2] اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو زبید،عدن،رمع اور ساحل کا گورنر نامزد کیا [3]اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کے
[1] صحیح البخاري،کتاب المغازی،باب،حدیث نمبر ۳۹۸۸،۷/۳۰۷۔۳۰۸۔ [2] دیکھئے:جوامع السیرہ ص ۲۴۔نیز دیکھئے:صحیح البخاري،کتاب المغازی،باب بعث علی بن ابی طالب وخالد بن ولید رضی اللّٰهُ عنہما إلی الیمن قبل حجۃ الوداع،حدیث نمبر ۴۳۵۰،۸/۶۶۔ [3] دیکھئے:جوامع السیرہ ص ۲۳۔