کتاب: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی - صفحہ 102
’’أَرْحَمُ اُمَّتِيْ بِأُمَّتِيْ أَبُوْبَکْر،وَأَشَدُّہُمْ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ عُمَرُ،وَأَصْدَقُہُمْ حَیَائً عُثْمَان،وَأَقْضَاہُمْ عَلِيُّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ،وَأَقْرُؤُہُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ أَبِيّ بْنُ کَعْبٍ،وَأَعْلَمُہُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ،وَأَفْرَضُہُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ۔‘‘[1] ’’میری امت میں سے سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں،اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں،سب سے سچی حیا والے عثمان،اور سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب،اللہ کی کتاب کے سب سے زیادہ پڑھنے والے ابی بن کعب،حلال و حرام کو سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل اور علم الفرائض کے سب سے زیادہ ماہر زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا صحابہ کرام میں سے تین علی،معاذ بن جبل اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جوان تھے۔[2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بھی بنا کر بھیجا۔اس سلسلے میں امام ابوداؤد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انھوں نے بیان کیا: ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا۔میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ آپ مجھے بھیج رہے ہیں،جب کہ میں ابھی نوعمر ہوں اور عدالتی امور کا مجھے علم بھی نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ تیرے دل کی راہنمائی کرے گا۔تیری زبان میں ثبات پیدا کرے گا۔جب تیرے سامنے دو
[1] صحیح سنن ابن ماجہ،المقدمہ،فضائل أصحاب رسول اللّٰهِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم،جزء حدیث نمبر ۱۲۵۔۱۵۴،۱/۳۱۔شیخ البانی نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱/۳۱)۔ [2] اس بارے میں تفصیل سابقہ صفحات میں گزر چکی ہے۔