کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 94
یَدْعُوْھُمُ الرَّسُوْلُ صلي اللّٰه عليه وسلم فِيْ أُخْرَاھُمْ، فَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم غَیْرَ اِثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا، فَأَصَابُوْا مِنَّا سَبْعِیْنَ۔ وَ کَانَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم وَ أَصْحَابُہٗ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ یَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِیْنَ وَ مِائَۃٍ وَ سَبْعِیْنَ أَسِیْرًا وَ سَبْعِیْنَ قَتِیْلًا۔‘‘ [سو جب وہ ان کے پاس نیچے آئے، تو ان کے مُنہ پھیر دئیے گئے اور وہ شکست خوردہ ہو کر پلٹے۔ یہی وہ وقت تھا، کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اُن کے پیچھے سے بلا رہے تھے۔ سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ انہوں نے ہم میں سے ستر اشخاص کو شہید کیا۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بدر کے موقع پر مشرکوں کے ایک سو چالیس کو مصیبت میں مبتلا کیا تھا: ستر قیدی بنائے تھے اور ستر قتل کیے تھے]۔ [2] حافظ ابن حجر نے حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے: وَ الْغَرَضُ مِنْہُ أَنَّ الْہَزِیْمَۃَ وَقَعَتْ بِسَبَبِ مُخَالَفَۃِ الرُّمَاۃِ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم : ’’لَا تَبْرَحُوْا مِنْ مَکَانَکُمْ۔‘‘[3] (امام بخاری کا) اس (حدیث کا اس باب میں بیان کرنے) سے مقصود یہ ہے، کہ تیر اندازوں کی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم [تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا] کی حکمِ عدولی کی بنا پر شکست ہوئی]۔
[1] ایک دوسری روایت میں ہے: ’’عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تاکید کی تھی، کہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹنا۔ (لیکن) انہوں نے انکار کیا۔ جب انہوں نے انکار کیا، تو اُن کے چہرے پھیرے گئے اور اُن میں سے ستر آدمی شہید کیے گئے۔‘‘ (صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ أحد، جزء من رقم الحدیث ۴۰۴۳، ۷/۳۴۹)۔ [2] المرجع السابق، کتاب الجہاد، باب ما یکرہ من التنازع و الاختلاف في الحرب، و عقوبۃ من عصی إمامہ، …، جزء من رقم الحدیث ۳۰۳۹، ۶/۱۶۲-۱۶۳۔ [3] فتح الباري ۶/۱۶۳۔