کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 80
تین مفسرین کے اقوال:
i: علامہ قرطبی اس کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
وَ الْآیَۃُ نَصٌّ فِيْ أَنَّ الشُّکْرَ سَبَبٌ لِّلْمَزِیْدِ، {وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ} وَعَدَ بِالْعَذَابِ عَلَی الْکُفْرِ کَمَا وَعَدَ بِالزِّیَادَۃِ عَلَی الشُّکْرِ۔[1]
[آیت (شریفہ) اس بارے میں نص (یعنی قطعی طور پر دلالت کرتی) ہے، کہ شکر مزید (نعمتوں کے پانے) کا سبب ہے {وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ} ناشکری پر عذاب کی وعید ہے۔ جس طرح کہ شکر پر اضافے کا وعدہ ہے۔‘‘]
ii: قاضی ابو سعود نے قلم بند کیا ہے:
’’وَ اذْکُرُوْا حِیْنَ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ أَيْ آذَنَ إِیْذَانًا بَلِیْغًا لَا تَبْقٰی مَعَہٗ شَائِبَۃُ شُبْہَۃٍ لِمَا فِيْ صِیْغَۃِ التَّفَعُّلِ مِنْ مَّعْنَی التَّکَلُّفِ الْمَحْمُوْلِ فِيْ حَقِّہٖ سُبْحَانَہٗ عَلٰی غَایَتِہِ الَّتِيْ ھِيَ الْکَمَالُ۔‘‘[2]
[’’تم یاد کرو، کہ جب تمہارے رب نے ایسے بلیغ انداز میں اعلان فرمایا، کہ جس کے بعد ذرّہ برابر شبہ کی گنجائش نہ رہی، کیونکہ صیغہ [تفعّل] میں [تکلّف] کا معنیٰ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کے استعمال کی صورت میں اس سے مراد، کسی بات کا درجۂ کمال کو پہنچنا ہوتا ہے۔‘‘]
iii: علامہ شوکانی نے تحریر کیا ہے:
اَلْمَعْنٰی لَئِنْ شَکَرْتُمْ إِنْعَامِيْ عَلَیْکُمْ بِمَا ذُکِرَ لَأَزِیْدَنَّکُمْ نِعْمَۃً إِلٰی نِعْمَۃٍ تَفَضُّلًا مِّنِّيْ، وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ ذٰلِکَ وَ جَحَدْتُّمُوْہُ إِنَّ
[1] تفسیر القرطبي ۹/۳۴۳ باختصار۔
[2] تفسیر أبي السعود ۵/۳۴۔