کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 65
انہوں نے فرمایا: ’’ھٰذَا بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ۔‘‘[1] ’’یہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور زیادہ (گناہوں) سے تو وہ درگزر فرماتے ہیں۔‘‘ ج: ابن عون نے بیان کیا: ’’إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سِیْرِیْنَ لَمَّا رَکِبَہُ الدَّینُ اِغْتَمَّ لِذٰلِکَ،فَقَالَ: ’’إِنِّيْ لَأَعْرِفُ ھٰذَا الْغَمَّ۔ ھٰذَا بِذَنبٍ أَصَبْتُہٗ مُنْدُ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔‘‘[2] ’’بلاشبہ جب محمد بن سیرین[3] پر قرض چڑھ گیا، تو وہ اس کی وجہ سے غمگین ہو گئے اور فرمایا: ’’یقینا میں اس غم (کے سبب) کو پہچانتا ہوں۔ یہ میرے چالیس برس پہلے کیے ہوئے گناہ کی وجہ سے ہے۔‘‘ د: ابن ابی حواری نے بیان کیا: ابو سلیمان دارانی[4] سے پوچھا گیا: ’’مَا بَالُ الْعُقَلَائُ أزَالُوْا اللَّوْمَ عَمَّنْ أَسَآئَ إِلَیْھِمْ؟‘‘ ’’عقل مند لوگ اپنے ساتھ برائی کرنے والوں کو قابلِ ملامت کیوں نہیں گردانتے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:
[1] بحوالہ تفسیر القرطبي ۱۶/۳۱۔ [2] بحوالہ: المرجع السابق ۱۶/۴۱۔ [3] (محمد بن سیرین): انصاری، ابوبکر ابن ابی عمرہ البصری، ثقہ، پختہ، عابد، عظیم المرتبت، ۱۱۰ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب ص ۴۸۳)۔ [4] ابو سلیمان دارانی: حافظ ذہبی لکھتے ہیں: امام کبیر، زاہد العصر، ابو سلیمان عبدالرحمن بن احمد، کم و بیش ۱۴۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۱۵ھ میں فوت ہوئے۔ (ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلآء ۱۰/۱۸۲-۱۸۶)۔