کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 64
i: سلف صالحین کا پیش آمدہ مصائب کا سبب اپنے گناہوں کو ٹھہرانا: سلف صالحین اپنے اوپر نازل شدہ مصیبتوں کا سبب اپنے گناہوں کو ٹھہراتے تھے۔ اس سلسلے میں ذیل میں چار مثالیں ملاحظہ فرمائیے: ا: امام ابن سعد نے ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ: [أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ أَبِيْ بَکْرِ الصِّدِّیْقِ رضی اللّٰه عنہا کَانَتْ تَصْدَعُ، فَتَضَعُ یَدَھَا عَلٰی رَأْسِہَا، وَ تَقُوْلُ: ’’بِذَنْبِيْ، وَ مَا یَغْفِرُہُ اللّٰہُ تَعَالٰی أَکْثَرُ۔‘‘[1] [بلاشبہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا کو سر درد ہوتا، تو اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھتیں اور فرماتیں: ’’میرے گناہ کی وجہ سے اور جو اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں، وہ زیادہ ہے۔‘‘ ب: مُرَّۃ ہمدانی بیان کرتے ہیں: ’’رَأَیْتُ عَلٰی ظَہْرِ کَفِّ شُرَیْحٍ[2] قُرْحَۃً، فَقُلْتُ: ’’یَا أَبَا أُمَیَّۃَ! [3]مَا ھٰذَا؟‘‘ میں نے شریح کی ہتھیلی پر پھوڑا دیکھا، تو میں نے عرض کیا: ’’اے ابو امیہ! یہ کیا ہے؟‘‘
[1] الطبقات الکبرٰی ۸/۲۵۱۔ نیز ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۲/۲۹۰۔ [2] شریح بن حارث بن قیس کوفی، نخعی، قاضی، ابو امیہ، مخضرم، ثقہ۔ ان کے بارے میں کہا گیا ہے، کہ انہیں شرفِ صحبت میسر آیا۔ ۸۰ھ سے پہلے یا بعد فوت ہوئے اور ان کی عمر ایک سو آٹھ برس یا اس سے زیادہ تھی۔ کہا جاتا ہے: وہ ستر سال تک قاضی رہے۔ (ملاحظہ ہو: تقریب التہذیب ص ۲۶۵)۔ مخضرم: وہ شخص جس نے زمانۂ جاہلیت اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، دونوں کو پایا ہو، دائرۂ اسلام میں داخل ہوا ہو، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہو۔ صحیح بات یہ ہے، کہ ایسا شخص تابعین میں شمار کیا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تیسیر مصطلح الحدیث ص ۲۰۱-۲۰۲)۔ [3] أبو أمیہ: قاضی شریح کی کنیت۔