کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 63
i: آیت کا تمام اقسام کی مصیبتوں کا احاطہ کرنا: اس سلسلے میں آیتِ شریفہ میں حسبِ ذیل تین باتیں ہیں: ا: {وَمَا اَصَابَکُمْ} [اور تمہیں نہیں پہنچتی] میں [مَا] نافیہ ہے۔ ب: {مِّنْ مُّصِیبَۃٍ} میں [مُصِیْبَۃ] اسم نکرہ ہے۔ ج: [مِنْ] استغراقیہ [یعنی کوئی]۔ ان تینوں باتوں کی وجہ سے آیت شریفہ سے مراد یہ ہو گی …و اللہ تعالیٰ أعلم…: [تمہیں کوئی مصیبت بھی نہیں پہنچتی، مگر تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے۔][1] ii: آیت کا تعلق گناہ گار لوگوں سے ہونا: علامہ الوسی لکھتے ہیں: آیت کا تعلق مسلمان اور دیگر گناہ گار لوگوں سے ہے، کیونکہ جن کے گناہ نہیں ہوتے، جیسے انبیاء علیہم السلام ، انہیں بھی مصائب پہنچتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے: [لوگوں میں سے سب سے کڑی آزمائش والے انبیاء- علیہم السلام -، پھر درجہ بدرجہ۔] ایسے حضرات کو مصائب کا پہنچنا، اُن کے درجات کو بلند کرنے یا ہم سے مخفی دیگر حکمتوں کی بنا پر ہوتا ہے۔ جہاں تک بچوں اور مجنون لوگوں کا تعلق ہے، تو اُن کے بارے میں کہا گیا ہے، کہ وہ غیر مخاطَب ہیں، کیونکہ وہ (احکامِ شرعیہ کا خطاب تو) مکلفین کے لیے ہے۔ اگر انہیں احکامِ شرعیہ کا مخاطَب ٹھہرایا بھی جائے، تو آیت کے گناہ گار لوگوں کے ساتھ مخصوص ہونے کی وجہ سے وہ لوگ آیت میں ذکر کردہ قاعدے سے خارج ہو گئے۔ اُن پر آنے والی مصیبتوں کی حکمتیں مخفی ہیں۔‘‘[2]
[1] ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۴/۷۶۷۔ [2] روح المعاني ۲۵/۴۱۔