کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 61
شرف اور بلند مقام والے، پھر اُن سے کم درجہ کی بزرگی اور کم حیثیت والے، پھر اُن سے کم حیثیت والے، یعنی جو اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اُس کی آزمائش سب سے زیادہ شدید ہوتی ہے، تاکہ اُس کا اجر بہت زیادہ ہو۔
(یُبْتَلَی الْعَبْدُ عَلٰی حَسبِ دِیْنِہٖ) یعنی آزمائش کی کیفیت اس کے ایمان کے ضعف و قوت اور نقص و کمال کے مطابق ہوتی ہے۔[1]
خلاصۂ گفتگو یہ ہے، کہ مصائب کے آنے کے اسباب میں سے ایک یہ ہے، کہ مصیبتیں، ابتلا، امتحان اور آزمائش کے لیے آتی ہیں۔ اللہ کریم سے اپنے اور تمام اہلِ اسلام کے لیے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں۔ إِنَّہٗ سَمِیْعٌ مُجِیْبٌ۔
-۲-
مصائب کا بطورِ سزا آنا
متعدد آیات و احادیث میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔، کہ بندوں پر مصیبتوں کا نزول اُن کے گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔
دو دلیلیں:
ا: ارشاد ربانی:
{وَمَا أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ}[2]
[اور تمہیں جو بھی مصیبت لاحق ہوتی ہے، تو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے اور وہ بہت سی چیزوں سے درگزر کر جاتے ہیں۔]
تفسیرِ آیت میں دو علماء کے اقوال:
[1] مرقاۃ المفاتیح ۴/۳۹۔۴۰ باختصار۔
[2] سورۃ الشورٰی / الآیۃ ۳۰۔